انسان کی پہلی پرواز - First Flight
First Flight ✈️
First Flight |
خلیفہ عبد الرحمان دوم کے زیر سرپرستی 852ء میں ایک بہادر شخص جس کا نام ارمن فرمن (Armen Firman) تھا اس نے پروں کی طرح کی ایک بڑی سی چادر کے ذریعے قرطبہ کی ایک اونچی عمارت سے اڑنے کی کوشش کا مظاہرا کیا اس کے لیے لوگوں سے شرط بھی لگائی کیا مگر وہ فوراً ہی نیچے گر گیا اور اس کو معمولی سی چوٹیں آئیں۔ ارمن کسی حد تک اپنی شرط جیت گیا تھا۔ اس کو دنیا کا سب سے پہلا پیرا شوٹ بھی کہا جاتا ہے۔ عباس ابن فرناس بھی یہ دیکھنے کے لیے وہاں پر موجود تھے۔ اس کے بعد ابن فرناس نے بھی اُڑان پر تجربات کرنا شروع کر دیے اور تئیس سال بعد ان کا تجربہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔
عباس ابن فرناس کے بنائے ہوئے اڑان مشین کا خاکہ
اس کا سب سے بڑا کارنامہ تاریخ میں پہلی انسانی پرواز ہے۔ وہ گھنٹوں پرندوں کو محو پرواز دیکھ کر انہیں کی طرح اڑنے کا خواہش مند تھا۔ اس نے کئی برس پرندوں کی پرواز کی تکنیک یعنی ایروڈائنامیکس کا بغور مطالعہ کیا اور ایک دن یہ اعلان کیا کہ انسان بھی پرندوں کی طرح اڑ سکتا ہے۔ جب اس کے ناقدین نے اُس کا مذاق اڑایا تو اس نے اپنی تھیوری کا عملی مظاہرہ بذات خود کرنے کا اعلان کر دیا ۔
اس نے پرندوں کے سے دو پر سائز میں اپنے وزن کے مطابق تیار کیے اور ان کے فریم ریشم کے کپڑے سے منڈھ دیے۔ پھر قرطبہ سے دو میل دور شمال مغرب میں واقع امیر عبد الرحمن الداخل کے بنائے ہوئے محل رصافہ کے اوپر واقع ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور کئی سو تماش بینوں کی موجودگی میں چٹان کے اوپر کھڑا ہو کر دونوں پر اپنے جسم کے ساتھ باندھ لیے۔ تماشائی بڑی حیرت اور تعجب سے یہ ساری کارروائی دیکھ رہے تھے ان کا خیال تھا کہ ابھی اسی کوشش میں اس پاگل سائنسدان کی ہڈیاں تک سلامت نہیں بچیں گی۔ اپنی تیاریاں مکمل کرنے کے بعد ابن فرناس نے تماشائیوں کی جانب ایک نظر دیکھا اور پھر پہاڑی سے چھلانگ لگا دی۔ وہ اپنے پروں کی مدد سے ہوا میں کچھ دیر تیرتا رہا اور پہاڑ سے کچھ فاصلے پر واقع ایک میدان میں بحفاظت اتر گیا، اگرچہ اس کی کمر لینڈنگ کے دوران دباو کی وجہ سے تھوڑی بہت متاثر ہوئی۔ اس وقت اس کی عمر 65 یا 70 برس بیان کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ نویں صدی کے دوسرے ربع میں پیش آیا اور اس طرح وہ انسانی تاریخ کا ہوا میں پہلا اڑنے والا انسان کہلایا ۔
اس نے اپنا تجربہ اسی جگہ پر ارمان کی چھلانگ کے تقریباً تئیس برس بعد کیا۔ یہ جگہ ایسی پہاڑیوں پر مشتمل تھی جس کے نیچے ایک بہت بڑا ہموار قطعہ زمیں واقع تھا۔ اس جگہ ہوا نیچے زمین سے ہو کر پہاڑیوں سے ٹکراتی تھی اور اس کے بعد بلندی کی جانب جاتی تھی۔ وہاں پرندے ہوا کی اس قوت کی وجہ سے دوران پرواز فضا میں معلق رہنے کا مزہ اٹھاتے تھے۔ ابن فرناس نے پچھلے تئیس برس ایروڈانامیکس کا مطالعہ کرتے ہوئے گزارے تھے۔ مقررہ دن چھلانگ لگانے کے بعد ابن فرناس ہوا میں کچھ روایات کے مطابق دس سیکنڈ پرواز کرتا رہا مگر لینڈنگ کے دوران زمین سے بری طرح ٹکرایا۔ اس کی کمر اور چند دوسری ہڈیاں متاثر ہوئیں جس کی وجہ سے وہ ایک عرصہ صاحب فراش رہا۔ مگر وہ کچھ مدت بعد اپنی اس معذوری اور بڑھاپے کے باوجود چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا۔ یہ درد اور معذوری اس کی بقیہ عمر کے بارہ سال تک اس کے ساتھ رہی۔ قدامت پرست لوگوں کا کہنا تھا کہ خدا نے اس کو سزا دی ہے کیونکہ اس نے فانی انسان ہوتے ہوئے خدا کی دوسری مخلوق کی طرح بلندی پر جانا چاہا تھا۔ اس طرح کے طعنے وہ اپنی بقیہ عمر جب بھی عوام کے درمیان جاتا لوگوں سے سنتا رہا۔ اپنی جسمانی تکلیف کو کم کرنے کی خاطر وہ شراب اور نشہ آور ادویات کا سہارا لیتا رہا۔ تاہم ان بقیہ سالوں میں اس نے اپنے پلانیٹیریم کو امیر اندلس کی فرمائش پر موبائل بنایا۔ ریت سے بلور بنانے کا کام جاری رکھا، پانی اور دوسری قسم کی گھڑیاں بنانا بھی جاری رکھا ۔
اپنے فارغ وقت میں وہ اکثر غور کرتا کہ آخر پرواز کرنے والے سوٹ میں کیا خرابی تھی جس کی وجہ سے اسے چوٹ کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ اس کی سمجھ میں یہی آیا کہ پرندے اپنی پرواز اور لینڈنگ کے دوران اپنی دم کا استعمال کرتے ہیں۔ اس نے پر تو بنا لیے تھے مگر دم کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا تھا۔ اسے اپنی اس غلطی کا احساس شاید آخری سانس تک رہا ۔
ابن فرناس کے گزرنے کے کئی سال بعد تقریباً 1010ء میں ایک یورپی راہب ایلمر مالسمبری (Eilmer of Malmesbury)نے بھی عباس ابن فرناس کے بنائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق اڑن مشین بنائی اور اس کے مزید کچھ صدیوں بعد پندرہویں صدی میں لیونارڈو ڈاؤنچی نے اس میں اضافہ کیا ۔
علم ہیئت اور فلکیات (Astronomy) اور علوم نجوم (Astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ علی بن خلاق اندلسی اور مظفرالدین طوسی کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، مگر ان سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba)کے عظیم سائنسدان عباس بن فرناس نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دور جدید کی سیارہ گارہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا تھا۔ عباس بن فرناس وہ عظیم سائنس دان ہے جس نے دنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بناکر اڑایا۔ بعد ازاں البیرونی (Al-berouni) اور ازرقیل (Azarquiel) وغیرہ نے (Equatorail Instruments) کو وضع کیا اور ترقی دی۔[7]
اس نے قلمی چٹانوں کو توڑنے کے لیے مشین بنائی اور تال ترازُو (Metribine) بھی بنائی۔ اس کے علاوہ آبی گھڑی بھی ایجاد کی ۔
Copied
Comments
Post a Comment